۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
سید ثاقب اکبر

حوزہ/ہمارے ایک دوست تھے۔ آپ کو یاد ہو گا ملک جواد حسین جو بم بلاسٹ میں شہید ہو گئے، وہ اور ہم اکٹھے ہی قم المقدسہ میں رہتے تھے۔

تحریر : مرحوم سید ثاقب اکبر

حوزہ نیوز ایجنسی | ہمارے ایک دوست تھے۔ آپ کو یاد ہو گا ملک جواد حسین جو بم بلاسٹ میں شہید ہو گئے، وہ اور ہم اکٹھے ہی قم المقدسہ میں رہتے تھے۔ وہ اوپر والی منزل پہ رہتے تھے تو ہم نیچے رہتے تھے۔ ایک ان کے سسرالی بزرگوں میں ایک بزرگ تھے جنہوں نے قران حکیم کا ترجمہ کیا تھا ۔وہ کراچی گئے تو وہ ترجمہ اپنے ساتھ لے کے آئے ۔بڑا خوبصورت اچھا ترجمہ تھا۔ میں نے اس کو کھول کے دیکھا تو ان کے ہاتھ کے چار مصرعے اس پہ لکھے ہوئے تھے اور مجھے جواد بھائی نے بتایا کہ ان کی زوجہ فوت ہو گئیں تو ایک قران حکیم ان کے ہاتھ میں تھا تو اس پر یہ چار مصرعے انہوں نے ایک صفحے پر لکھ دئیے ان کی یاد میں، اپنے مرحومہ جو ان کی زوجہ تھیں۔ مجھے اس موقع پر وہ چار مصرعے اظہر بھائی کے لیے یاد آتے ہیں۔

آپ ہی تو تھے زندگی میری

آپ ہی کے بغیر جیتا ہوں

معجزہ اور کس کو کہتے ہیں زندگی کے بغیر جیتا ہوں زندگی میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں کہ جنہیں آپ حقیقی معنی میں کہیں کہ یہ میری زندگی ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں ۔

ہم نے آپس میں یہ عہد کر رکھا تھا کہ ہم جب بھی دعا کریں گے اجتماعی دعا تو اللہ سے گزارش کر رکھی تھی کہ جب ہم کہیں "ربنا" تو میں نے نیت کی ہوئی تھی کہ بھائی اظہر کو اس میں شامل کر اور انہوں نے نیت کی ہوئی تھی کہ ثاقب بھائی کو اس میں شامل کر۔

میں نے ان سے گزارش کی ہوئی تھی کہ فرمایا گیا ہے کہ ایک مومن ستر مومنین کی شفاعت کرے گا ۔میں نے بہت دفعہ ان سے یہ عہد لیا کہ اظہر بھائی اگر اپ کو موقع ملے گا شفاعت کا تو ایک میرا نام بھی لے لینا ۔میں پھر ایک دفعہ گزارش کروں گا اظہر بھائی جب شفاعت کا موقع ملے مجھے بھی یاد رکھنا۔

کچھ اس میں کوئی شک نہیں قبلہ شیخ صاحب(۱) سے ان کی محبت بڑی گہری ہے۔ اپنی آئی ڈی پر بھی شیخ صاحب کی تصویر لگائی ہوئی تھی۔ اپنی نہیں لگائی۔ زندگی اسی طرح انہوں نے ان کا دل کرتا تھا کہ ان کا کوئی نام نہ ہو شیخ صاحب کا نام ہو۔ایسی گہری محبت ان کی تھی شیخ صاحب سے۔

ان کے ننیال اور ددھدیال میں اچھے اعلیٰ لوگ تھے لیکن ان کے نانا مولوی سید شریف حسین بڑی اچھی خطابت کرتے تھے۔ لاہور میں ان کا گھر داتا دربار کے پیچھے بلال گنج میں تھا، وہیں میری پہلی ملاقات شاید 1972ء یا 1973ء ہوئی تو مجھے ان کے گھر کی بہت سی باتیں یاد ہیں ۔ان کی والدہ مجھے اپنے بیٹوں کی طرح، ان کے والد بیٹوں کی طرح چاہتے تھے ۔بڑی گہری محبتیں تھیں ہماری تو۔ ان کے نانا بھی بہت اللہ کے نیک بندے اور ولی تھے۔ خطاب کرتے تو یہ عام طور پہ یہاں سے اپنی مجلس آغاز کرتے۔

بلبل کو گل پسند گلوں کو ہوا پسند

ہم ترابیوں کو ہے خاک شفا پسند

یہ اپنی اپنی طبع ہے اے ساکنان خلد

تم کو ارم پسند ہمیں کربلا پسند

ایسی گودوں میں انہوں نے انکھ کھولی تھی تو اہل بیت سے کربلا سے، امام حسین سے ان کی محبت اسی طرح سے ماؤں نے جیسے شہید قائد(۲) نےکہا کہ ماؤں نے ہمیں اپنے دودھ میں پلائی ہے اہل بیت کی محبت۔ وہ اتنے اللہ کے نیک بندے اور برگزیدہ تھے۔ اظہر بھائی نے مجھے کئی دفعہ سنایا کہ جب ان کی وفات یعنی مولوی شریف حسین کا موقع آیا تو ایک تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ علم والی اور تعزیہ والی جگہ پر دفن کیا جائے گا یعنی کربلا گامے شاہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے تو دوسرا جب وہ وفاتِ کا موقع قریب آیا تو کہا سارے ہٹ جاؤ بسم اللہ، بسم اللہ پنجتن پاک آ گئے ہیں، اس طرح مولوی شریف حسین نے کہا۔ لاہور میں مومن پورہ قبرستان ہے۔ وہاں پہ ان کو دفن کرنے کے لیے لے گئے مولوی شریف حسین صاحب کو۔ تو قبر تیار تھی تو دفن ہونے کا وقت آیا تو نواب قزلباش کے چونکہ زیر اہتمام کربلا گامےشاہ تھا تو ان کا پیغام آیا کہ انہیں کربلا گامےشاہ دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ قبر بند کی گئی اور جو مولوی شریف حسین نے پیشین گوئی کی تھی عین اس کے مطابق ان کو کربلا گامےشاہ میں دفن کیا گیا۔ ہم کئی دفعہ جاتے تھے ان کی قبر پہ تو یہ شعر اس پہ آب بھی لکھے ہوئے ہیں۔

بلبل کو گل پسند گلوں کو ہوا پسند

علماء سے ان کی محبت بہت ہی نوجوانی میں سے تھی کیوں کہ وہ کوئی اٹھارہ سال کے ہوں گے اور میں کوئی بیس سال کا تو کربلا گامےشاہ ہے مولانا بشیر عباس نقوی صاحب مرحوم ہوتے تھے اس زمانے میں تو ہم اکٹھے وہیں پہ جا کے عام طور پہ مغربین کی نماز وہاں پڑھتے تھے۔ کئی دفعہ فجر بھی وہاں جا کے پڑھنی۔ ایک مولوی سعید نقشبندی صاحب ہوتے تھے داتا دربار میں تو وہ نماز کے بعد درس تفسیر کہا کرتے تھے تو ہم ادھر بھی چلے جاتے تھے ان کا بھی درس تفسیر ہم سنتے تھے کہ یہ کیا کہتے ہیں۔ یعنی علم کے حصول کے لیے کوئی مشکل نہیں تھی کہ ہم ہر کسی کی سنتے پھر بعد میں ظاہر ہے شیخ صاحب کے قدموں پہ آگئے۔ مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ میں انہیں لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کی خدمت میں۔ انہیں چونکہ علماء سے بہت گہری محبت تھی وہ رہ ہی نہیں سکتے تھے علماء کے بغیر۔ تو جب یہاں آگئے تو پہلے پنڈی میں رہتے تھے تو میں قبلہ قائد صاحب (۳) کی خدمت میں لے گیا پھر یہاں منتقل ہو گئے اسلام آباد میں تو قبلہ شیخ صاحب کی خدمت میں۔ پھر تو ان کا سب کچھ شیخ صاحب اور جامعہ اہل بیت اور الکوثر۔ ایڈیٹنگ میں انہوں نے بعض نئی چیزیں چونکہ یہ میرا بھی شعبہ ہے اور نئی چیزیں انہوں نے اور نئی زیبائی نئے پیراگرافنگ کے سٹائل اور نئی یعنی جملہ بندی اور اس کی آرائش پر انہوں نے بعض اجتہادی ان کی کاوشیں ہیں۔ اس پر جو لوگ اہل نظر ہیں وہ اس میں سے یعنی انہوں نے جس سطح کی تزئین و آرائش اور جس کو کہتے ہیں پریزنٹیشن مطالب کی اور اس کے جملہ بندی اور ان کی پیراگرافنگ اس کی جتنی ان کے اندر تھی ان کے اندر جو جمالیات تھی وہ سارے کے سارے اسے کاغذ پہ وہ لے کے آئے۔ان کی ہوئی ایڈیٹنگ جو ہے میرا خیال ہے اور ان کی جس طرح سے وہ اس کو بناتے تھے پیرے اور جیسے وہ ساری اس کی آرائش کرتے تھے لفظوں کی اور جیسے لفظوں کو پیش کرتے بنانے یہاں تک کہ کامہ لگانے اور فل سٹاپ لگانے اور باقی چیزوں کو زیر زبر پر جیسے ان کی گہری نظر ہوتی تھی اور جیسی اس پر محنت کرتے تھے جیسے اس پہ جان خرچ کرتے تھے میں نہیں جانتا کسی اور کو میں نے دیکھا ہو۔ چونکہ ان کا شعبہ ویسے تو یہی تھا وہ جیسے، مجھے خود بھی ایسے ہی تجربہ ہوا۔ جب میں سی ڈی اے میں جاب کرنے کے لیے آیا تو مجھے لگتا تھا کہ یہ سی ڈی اے میری منزل نہیں ہے تو میں جیسے ضدی بچے اسکول جاتے ہیں نا اس طرح صبح اسکول جاتا تھا جیسے خوشی خوشی گھر آتےہیں اسکول سے، میں یوں ہی آتا تھا بالکل اظہر رضوی کا یہی حال تھا۔ وہ جیسے ضدی بچے اسکول جاتے تھے وہ اسی طرح دفتر میں یونہی جاتے تھے اور جیسے کہا گیا اور اسی طرح سے وہ خوشی خوشی گھر نہیں آتے تھے ان کا گھر تو جامعہ اہل بیت تھا اس طرح سے آتے تھے پھر اس پہ عاشقوں کا مسلک تو پھر ایک ہی ہوتا ہے نا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھا

آئینے کو لپکا ہے بڑی پریشان نظری کا

انہوں نے پھر ادھر ہی آنا ہوتا تھا اور واقعی حضرت آیت اللہ محسنی(۴) سے ان کی محبت عقیدت بہت تھی باقی سارے علماء کے ساتھ اچھا محبت کا رشتہ تھا۔ بہت اونچ نیچ آئی ہےہماری اپنی زندگی میں بھی، ہماری اور آپ کی باہمی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا لیکن قومیات میں مسائل آتے رہے یعنی ذرا بھی اظہر بھائی کی شخصیت میں اور ان کی محبتوں کے مراکز میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کو شک شبہات وہم ایسی چیزیں ان کے پاس سے نہیں گزری تھی بالکل سیدھے راستے پر، ہمیشہ مطمئن دل کے ساتھ، اپنے اس راستے پر ہمیشہ قائم رہتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان کے جو اہل سنت میں بھی استاد تھے ان کا بھی وہ بہت احترام کرتے تھے یعنی استاد کا احترام ، جن سے انہوں نے شارٹ ہینڈ سیکھی تھی ۔ وہ بڑے نیک آدمی تھے اہل سنت میں سے تھے تو ان کے پاس جانا عید کے دن پہلے ہم صبح قبلہ علامہ مرحوم بشیر عباس نقوی صاحب کے پاس جاتے تھے۔ ہماری عید ملن یہاں سے شروع ہوتی تھی۔ لاہور میں ہم رہتے تھے میں داتا دربار کے اس طرف بھاٹی دروازے میں رہتا تھا تو وہ داتا دربار کے اس طرف پیچھے بلال گنج میں رہتے تھے۔ تو بس پھر جب ہم آپس میں ملتے تھے تو عید ہماری یہاں سے شروع ہوتی تھی یعنی پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے اساتذہ سے ہم نے اپنے اساتذہ اور والدین کے ساتھ عید ملنی ہوتی تھی ۔ ان کی جوانی اتنی پاک باز تھی کہ میں خود شاہد ہوں سالہ سال کا۔ یہ انسان آرزو کرے کہ اس کی اولاد جو ہے وہ اتنی پاک باز ہو۔ واقعی ایک پاک باز جوانی, بڑے پاک باز نوجوان تھے ۔ان کو مولوی بشیر عباس نقوی صاحب مرحوم نے کہا کہ نماز میں عمامہ سر پہ رکھ کے نماز پڑھنا مستحب ہے۔ وہ گھر سے عمامہ پہن کے آتے تھے کربلا گامےشاہ میں، پھر اور مسائل اس سے پیدا ہوئے لیکن بہت ایسا خوبصورت لگتا تھا ان کا جمال، ان کی جوانی ایسی خوبصورت پھر جب سیاہ عمامہ پہنتے تھے۔ اس خوبصورت رنگ کے ساتھ تو بس ایسے ہی آدمی دیکھتا ہی رہ جاتا تھا۔ ہم نے کہا کہ ایسا نہ کریں اظہر بھائی تو وہ رک گئے ۔ان کو پتہ چل جاتا کہ یہ مستحب ہے، یہ اللہ کی رضا کا راستہ ہے پھر اظہر بھائی کو دیکھیں اور پھر ان کی اس پہ پابندی اور فریفتگی کو دیکھیں۔ نیکی کی طرف ان کی رغبت اور ان کا میلان سبحان اللہ سبحان اللہ ایسی ان کو یعنی اچھائی سے اور بھلائی سے اور خیر سے ان کی محبت تھی یعنی آپ ان کو کرید کرید کے زور لگا لگا کے کوئی دیکھ لیتا امتحان کر کر کے تو وہ ادھر سے ادھر نہیں ہوتے تھے۔ ت۔ وہ دوستوں کو بھی ترک نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ اہل سنت کے اخری عمر تک ان کے بعض دوست تھے جو جوانی میں ان کے دوست تھے۔ انہوں نے انہیں ترک نہیں کیا ہم سے محبت کرنا۔ بہرحال خیر کا سرچشمہ تھے ان کی یاد بھی خیر کا سرچشمہ رہے گی ان شاءاللہ ان کے خانوادے کو اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے جنہوں نے ان کے ساتھ محبتوں بھرا سلوک کیا ہے ان شاءاللہ اب بھی ان کے ساتھ سلوک کریں ان کے لیے دعاؤں میں ان کو یاد رکھیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کو بہت ہی بلند مقام ان شاءاللہ دیا ہے اور بھی زیادہ بلندی عطا فرمائے اور یہ سعادت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی سوائے پاک روحوں کے لیے۔

اللہ نے یہ لکھا ہے کہ قران و اہل بیت کا دامن وہ ہمیشہ کے لیے تھامے رکھیں۔

اپنے ہاتھوں میں ہے دامان کتاب و اہل بیت

ہم نے سینے سے لگا رکھی ہے پیغمبر کی بات

(۱) مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی

(۲) شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح

(۳) علامہ سید ساجد علی نقوی

(۴) آیت اللہ آصف محسنی مرحوم، افغانستان

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .